”آبِ گم“سے کولپور اسٹیشن تک مسلسل چڑھائی اور واپسی پر اترائی کی وجہ سے چلتی گاڑی کویکدم روکنا یا چلانا دشوار تھا،س لیے اس سیکشن پر دوہری پٹری بچھائی گئی 

مصنف:محمدسعیدجاوید


قسط:189


آب گم سے کولپور کا گریڈئینٹ1: 25 کا بنتا تھا یعنی ہر 100 فٹ کا فاصلہ طے کرکے پٹری کو4فٹ اونچا ہو جانا تھا۔ مجموعی طور پر اس بلندی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جو انجن سبی کے قدرے ہموار اسٹیشن تک مال گاڑی کی پچاس یا زیادہ ویگنوں کو با آسانی کھینچ لاتا تھا، وہ چڑھائی کی وجہ سے سبی سے آب گم تک محض 14 مسافر بوگیاں ہی لا سکتا تھا۔ اس زمانے کا ایک طاقتور اسٹیم انجن 14 ڈبوں کی گاڑی کو سبی سے آب گم تک تو کسی نہ کسی طرح کھینچ ہی لاتا تھا، تاہم آگے کی چڑھائی چڑھنا اس کے بس کا بھی روگ نہیں تھا- لہٰذا طے پایا کہ آب گم کے اسٹیشن سے ایک اضافی انجن ریل گاڑی کے پیچھے لگایا جائے گا اور یوں دونوں مل کر ریل گاڑی کو یہاں سے آگے لے جائیں گے۔


یہ فاضل انجن”بینکر انجن“ کہلاتا ہے۔ عام حالات میں تو یہ اگلیمرکزی انجن کے ساتھ چلتا ہے، تاہم کسی پہاڑی پرچڑھائی کی صورت میں یہ انجن گاڑی کو آگے دھکیلتا رہتا ہے۔ اور جب اگلا انجن بلندی سے نشیب کی طرف اترتا ہے تو قدرتی بات ہے کہ اس کے پیچھے لگی ہوئے کچھ بوگیاں یا ویگنیں ابھی چڑھائی چڑھ ہی رہی ہوتی ہیں، اگلا انجن چونکہ نیچے اتر رہا ہوتا ہے اس لیے اس کا زور ان چڑھائی پر چڑھتی ہوئی بوگیوں تک نہیں پہنچ پاتا، تب یہ بینکر انجن ہی ان کو پیچھے سے دھکیلتا رہتا ہے۔


اسی طرح جب واپسی پر ساری گاڑی نشیب کی طرف اْتَر رہی ہوتی ہے تو یہ بینکر انجن پیچھے سے بریک لگا کر گاڑی کی رفتار کو قابو میں رکھتا ہے۔ مال گاڑی کی نیچے اترتی ہوئی رفتار کو قابو میں رکھنے کے لیے اس کے پیچھے کچھ خالی اور اضافی ویگنیں بھی لگا دی جاتی ہیں تاکہ وہ بریک لگانے میں مدد گارہوں۔


بینکر انجن لگانے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ عام حالات میں اس علاقے یعنی آب گم میں 9مسافر بوگیوں پر ایک بینکر انجن لگتا ہے لیکن اگر ان کی تعداد 10 یا اس سے کچھ زیادہ ہو جائے تو پھرمرکزی انجن کے ساتھ2 بینکر انجنوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ بڑی اور طویل ایکسپریس گاڑیوں، جیسے کہ پشاور سے کوئٹہ جانے والی جعفر ایکسپریس کوآب گم سے کولپور تک لے جانے کے لیے اس کے مرکزی انجن کے علاوہ پیچھے 2اضافی انجن لگتے ہیں گویا اسے بیک وقت 3 انجن مل کر کھنچتے اور دھکیلتے ہیں۔


آب گم سے کولپور اسٹیشن تک جاتے ہوئے مسلسل چڑھائی اور واپسی پر اترائی کی وجہ سے چلتی ہوئی گاڑی کویکدم روکنا یا چلانا تھوڑا سا دشوار ہوتا ہے۔اس لیے اس سیکشن پر دوہری پٹری بچھائی گئی ہے تاکہ مخالف سمت سے آنے والی گاڑی کو کراسنگ کروانے کے لیے کسی گاڑی کو بریک نہ لگانا پڑیں اوروہ دونوں رکے بغیر اپنے اپنے راستوں پر چلتی رہیں۔خدا نخواستہ کسی گاڑی کے حادثے یا پٹری سے اترنے کے وجہ سے، جس کا وہاں کافی خدشہ ہوتا ہے، صرف ایک ہی پٹری بند ہوتی ہے، اس دوران آنے جانے والی گاڑیاں دوسری لائن کو استعمال کرتے ہوئے اپنا سفرجاری رکھتی ہیں۔ وادی ئبولان کے آخری بڑے اور سب سے بلند اسٹیشن کولپور پر یہ اضافی بینکر انجن ہٹا دیا جاتا ہے کیونکہ وہاں سے کوئٹہ تک کا راستہ قدرے ہموار ہو جاتا ہے اورگاڑی اپنے معمول کے مطابق چلتی جاتی ہے۔


(جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
رجحان کو جلد جانیں۔      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap