مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:194
لیکن ذرا ٹھہرئیے! یہ حسین منظر آپ کو صرف ایک ہی طرف سے دکھائی دے گا، سرنگ کے دوسرے سرے سے دیکھنے پر تو یہ بھی ایک عام سی سرنگ ہی محسوس ہوگی۔ یہ بلا شبہ وادیِ بولان کے اس پہاڑی سلسلے کی سب سے خوبصورت ریلوے سرنگ ہے جس کی تصاویر اکثرکیلنڈروں اور تصویری کارڈوں پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ اتنی حسین جگہ ہے کہ قریب سے گزرتی ہوئی قومی شاہراہ پر چلنے والے مسافر اپنی گاڑیاں روک کر خاص طور پر اسے دیکھنے اور یہاں کی تصویریں بنانے کے لیے اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔
سرنگ نمبر 6- 13
اس کے بعد سرنگ نمبر 6 سے 13 تک ایسی کوئی قابل دید سرنگ نہیں ہے، جس کا ذکر کیا جا سکے، بس آتی ہیں، پل بھر کے لیے جھلک دکھاتی ہیں اور چپ چاپ گزرجاتی ہیں سوائے اس کے کہ سرنگ نمبر 11 دو ہیں یعنی ایک A -11بھی ہے جو لگتا ہے بعد میں بنا کر اس کو یہ نمبر دیاگیا ہے۔ سرنگ نمبر 12 اور 13 میں بھی بتانے والی کچھ خاص بات نہیں ہے۔
یہاں نمبر 13 تک تمام سرنگوں کو صرف نمبروں سے ہی جانا جاتا ہے۔ تاہم اس کے بعد نمبر تو اسی طرح ایک تسلسل سے جاری رہتے ہیں مگر ہرسرنگ کا ایک منفرد نام بھی رکھ دیا گیا تھا اور اکثر لوگ ان کو اسی نام سے ہی جانتے ہیں۔ ہر نام کی کوئی نہ کوئی توضیع ضرور دی جاتی ہے اس میں سے کچھ یوں ہیں:
سرنگ نمبر۔14کیسکیڈٹنل
14 نمبر سرنگ کا نام کیسکیڈ ٹنل رکھا گیا ہے۔ کچھ پہلے اس کا ہلکا سا ذکر ہوا تھا۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ پہلے اس پہاڑی میں بنائی گئی ایک سرنگ سے ابتدائی طور پر چلائی گئی چھوٹے گیج کی گاڑی گزرتی تھی، یہ اس پہاڑی ے نچلے حصے میں بنائی گئی تھی۔ بعد میں جب سیلاب کی وجہ سے پہلے کی بچھائی ہوئی چھوٹے گیج کی پٹری پوری طرح ناکارہ اور برباد ہو گئی تو حکومت نے اس کی جگہ براڈ گیج کی نئی پٹری بچھانے کا فیصلہ کیا، اب ایک ایسی سرنگ کی ضرورت تھی جس میں سے بڑے قد کاٹھ کی گاڑی کو گزارا جا سکے۔ لہٰذا ایک نئی اور چوڑی سرنگ پہلے والی سے تھوڑا بلندی پر کھودی گئی تھی۔ چونکہ اس مقام پر دونوں سرنگیں یعنی،پرانی چھوٹی اور نئی چوڑی والی ایک ہی جگہ پر اْوپر نیچے موجودہیں اور یہ منظر گاڑی میں سے اور پٹری کے ساتھ چلتی ہوئی قومی شاہراہ سے نظر بھی آتا ہے اس لیے اس نئی سرنگ کو انگریزوں نے کیسکیڈ ٹنل کہنا شروع کر دیا جس کا مطلب ہے کہ ایک کے اوپر دوسری ٹنل۔
سرنگ نمبر۔15ونڈی کارنرٹنل
سرنگ نمبر 15 کا نام ونڈی کارنر ٹنل پڑ گیا تھا، اس کی بھی ایک وجہ تھی کہ یہ در اصل ایسے زاویئے پر بنی ہوئی ہے جہاں ارد گرد کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر ہوا فراٹے بھرتی ہوئی آتی ہے اور بہت شدت کے ساتھ سرنگ کے اندر داخل ہوتی ہے، یہ ہوا خاص طور پر سردیوں میں اتنی تیز اور سرد ہوتی ہے کہ ایک لمحے کے لیے انسان پریشان ہو جاتا ہے اور بادلوں کی طرح اْڑ اْڑ جاتا ہے۔ تیز رفتاری سے آتی ہوئی ریل گاڑی سے جب یہ ہوا ٹکراتی ہے تو وہ بھی کچھ ڈگمگا سی جاتی ہے اور اس کی رفتار میں بھی فرق پڑتا ہے۔ اسی لیے ڈرائیوروں کویہاں محتاط رہنے کی ہدایات دی جاتی ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔