حکیم آفتاب احمد قرشی بلا کی یادداشت اور حافظہ رکھتے تھے، اْن کے اپنے بقول تحریک پاکستان کے ایک لاکھ کارکنوں کے نام و پتے اْنہیں زبانی یاد تھے

مصنف:رانا امیر احمد خاں


قسط:63


مغربی پاکستان یوتھ موومنٹ کی مجلس عاملہ


مغربی پاکستان یوتھ موومنٹ کی صوبائی مجلس عاملہ کے ارکان میں لاہور سے ملک معراج خالد، میانوالی سے امان اللہ خان نیازی ایڈووکیٹ، گوجرانوالہ سے ماہر تعلیم ایم آئی شمیم، علامہ شبیر بخاری، ملتان سے پروفیسر مبارک علی مرزا، کراچی سے پرنسپل پروفیسر انور عادل، حیدر آباد سے بیرسٹر محمد علی شاہ،لاہور سے معروف صحافی ضیاء الاسلام انصاری، ظہور عالم شہید، اے ایچ نجفی ایڈووکیٹ (والد جسٹس علی باقر نجفی حال جج لاہور ہائی کورٹ) کے اسماء گرامی شامل ہیں۔ ملک معراج خالد ایفرو ایشیائی سولیڈیریٹی کانفرنس کے سربراہ تھے اور سامراجی طاقتوں کے خلاف افریقی و ایشیائی قوموں کے اتحاد کے داعی تھے۔


امان اللہ خان نیازی میانوالی یوتھ موومنٹ کے صدر اور سینئر ایڈووکیٹ تھے۔ سالہا سال پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین رہے۔ وہ غالباً سابق وزیراعظم عمران خان کے حقیقی چچا تھے۔ پنجاب میں بڑی بہادر شخصیتوں میں اْن کا شمار ہوتا تھا۔ آفتاب قرشی کی زبانی ہم سْنتے تھے کہ گورنر امیر محمد خان جیسے اچھے منتظم اور جابر حکمران بھی کوشش کے باوجود اْنہیں جھکانے اور انہیں مادرِ ملت کی بجائے ایوب خاں کی حمایت کے لئے آمادہ عمل کرنے میں ناکام رہے۔


ضیاء الاسلام انصاری کا شمار انتہائی ذہین و فطین صحافیوں میں ہوتا تھا۔ اْن دنوں وہ روزنامہ”مشرق“کے چیف نیوز ایڈیٹر تھے۔ بعدازاں نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین بھی رہے۔ یوتھ موومنٹ کی سماجی برائیوں بالخصوص ملاوٹ کے خلاف مہم میں ان کا اور میرا بڑا ساتھ رہا۔


ظہور عالم شہید پْرانے صحافیوں میں سے تھے، اْن دنوں روزنامہ”نوائے وقت“ لاہور میں بطور چیف نیوز ایڈیٹر کام کر رہے تھے۔ اْنہوں نے پاکستان کے قیام کے لئے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن کے طور پر بھی خدمات انجام دی تھیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے اْنہوں نے نوائے وقت سے ریٹائر ہونے کے بعد ”جاویداں“ کے نام سے ایک روزنامے کا بھی اجراء کیا۔


علامہ شبیر بخاری ماہر تعلیم تھے، ڈویژنل انسپکٹر سکولز کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد لاہور میں قیام پذیر رہے۔ پائے کے مقرر، علم و فضل میں عالی مقام اور خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔


آفتاب احمد قرشی اْن چوٹی کے سٹوڈنٹ لیڈروں میں سے تھے جنہوں نے قیام پاکستان سے قبل مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے قیامِ پاکستان کے لئے قائداعظمؒ کی قیادت میں گراں قدر خدمات انجام دی تھیں۔ تقریباً ہر سال قائداعظم اْن کی دعوت پر اسلامیہ کالج لاہور کے طلباء سے خطاب کے لئے تشریف لایا کرتے تھے۔ حکیم آفتاب قرشی نے قائداعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پنجاب بھر کے کالجوں کے مسلم طلباء کو ٹولیوں کی شکل میں دیہاتوں میں روانہ کیا تھا کہ گاؤں گاؤں جا کر دیہاتی ووٹروں کو 1945-46ء کے عام انتخابات میں پاکستان کے حق میں مسلم لیگ کو ووٹ دینے کے لئے آمادہِ عمل کریں۔حکیم آفتاب احمد قرشی بلا کی یادداشت اور حافظہ رکھتے تھے، اْن کے اپنے بقول تحریک پاکستان کے ایک لاکھ کارکنوں کے نام و پتے اْنہیں زبانی یاد تھے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد میاں محمد ممتاز خان دولتانہ وزیراعلیٰ پنجاب نے حکیم آفتاب احمد قرشی اور دیگر نوجوان کارکنوں کا داخلہ مسلم لیگ ہاؤس میں اس خوف سے بند کردیاتھا کہ یہ لوگ سیاست میں اْن جیسے روائتی سیاستدانوں سے آگے نکل جائیں گے۔ اْس وقت کی صوبائی مسلم لیگی لیڈر شپ سے مایوس ہو کر آفتاب قرشی نے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا اور اْن کے دیگر ساتھی سی ایس ایس کرنے کے بعد مختلف محکموں میں اعلیٰ آفیسر بن گئے۔ 1951ء میں طبیہ کالج سے حکیم بن کر فارغ ہونے کے بعد انہوں نے قومی خدمت کی لگن کے باعث آل پاکستان یوتھ موومنٹ کے نام سے نوجوانوں کی پہلی کل پاکستان تنظیم اس خیال سے قائم کی کہ نوجوانوں کو منظّم کرکے اْن کی صلاحیتوں سے سماجی کاموں اور قومی تعمیرنو کے کاموں میں استفادہ کیا جائے۔


(جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
رجحان کو جلد جانیں۔      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap