میری بقا کو دار و رسن کون دے گیا۔۔۔

رنگینئی جمال سخن کون دے گیا


مجھکو محبتوں کا چلن کون دے گیا


روتی ہے شب کی اوٹ میں چھپ چھپ کے چاندنی


کرنوں کو تیرگی کا کفن کون دے گیا


دیکھا ہے آب درد میں لمحوں کو تیرتے


سوچوں کو میری یاد کہن کون دے گیا


دست اجل پہ بیٹھ کے میں سوچتا رہا


میری بقا کو دار و رسن کون دے گیا


جب اس نے مجھکو پیار سے دیکھا نہیں کبھی


پھر میرے دل کو ایسی چبھن کون دے گیا


اٹھتی ہے میری سوچ سے کرب و الم کی چیخ


منظر یہ آج رنج و محن کون دے گیا

کلام :منظرانصاری

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
رجحان کو جلد جانیں۔      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap