کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن)کراچی کے علاقے لیاری میں پانچ منزلہ عمارت منہدم کے مقدمے میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے 8 افسران اور عمارت کے مالک کو گرفتار کرلیا گیا، ملزمان کے خلاف قتلِ خطا اور مجرمانہ غفلت کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔
ڈان نیوزکے مطابق بغدادی، لیاری میں عمارت منہدم ہونے کے مقدمے میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے ) کے آٹھ افسران کو جمعرات کو قتلِ خطا اور مجرمانہ غفلت وغیرہ کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ڈی آئی جی ساؤتھ زون کراچی سید اسد رضا کے مطابق یہ گرفتاریاں 4 جولائی کو لیاری مارکیٹ کے علاقے میں بغدادی پولیس کی حدود میں ایک بوسیدہ پانچ منزلہ عمارت کے منہدم ہونے کے بعد ایف آئی آر کے اندراج کے بعد کی گئی ہیں، جس میں خواتین اور بچوں سمیت 27 افراد جاں بحق اور چار دیگر زخمی ہوئے تھے۔
سید اسد رضا نے مزیدبتایا کہ کہ لوکل گورنمنٹ اینڈ ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر کی شکایت پر درج کی گئی ایف آئی آر میں ( ایس بی سی اے کے ) 9 افسران اور عمارت کے موجودہ مالک کو نامزد کیا گیا ہے۔
نامزد ملزمان میں سے ایس بی سی اے کے آٹھ ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ ایک عہدیدار کو بیماری کے باعث گرفتار نہیں کیا گیا، عمارت کے مالک رحیم بخش خاصخیلی کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ ایس بی سی اے کے اہلکاروں کو ان کے ہیڈ آفس سوک سینٹر سے گرفتار کیا گیا جہاں انہیں ایک انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا گیا تھا تاکہ عمارت کے انہدام کی وجوہات کے بارے میں اپنا موقف پیش کر سکیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے کمشنر کراچی کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس نے اپنی کارروائی شروع کر دی تھی، اس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں بھی منعقد ہوا تھا۔
کمیٹی کے ایک رکن نے ایس بی سی اے سے کہا تھا کہ وہ لیاری/ضلع جنوبی کے متعلقہ عہدیداروں کو جمعرات کو سوک سینٹر میں اپنے ہیڈ آفس میں ایک میٹنگ کے لیے بلائے۔
عہدیدار نے بتایا کہ پولیس پارٹی ایس بی سی اے کے ہیڈ آفس پہنچی اور انتظامیہ کو بتایا کہ عمارت کے انہدام کیس کی تحقیقات کے لیے ایس بی سی اے افسران کی حراست درکار ہے۔
عہدیدار کے مطابق پولیس افسران نے یہ بھی دلیل دی کہ انہیں افسران کو حراست میں لینے کے لیے ’ اوپر سے ہدایات’ ملی ہیں۔ یہ گرفتاریاں ایف آئی آر کے اندراج کے بعد کی گئیں۔
ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق، ، لوکل گورنمنٹ اینڈ ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ ڈیپارٹمنٹ سندھ کے سیکشن آفیسر اور مدعی حماد اللہ نے کہا کہ فوٹا مینشن کی عمارت 527.3 مربع گز پر پھیلی ہوئی تھی اور اسے 1986 میں تعمیر کیا گیا تھا، اس کے مالک نے پانچ منزلہ پلس گراؤنڈ فلور کی عمارت کو دو حصوں میں تعمیر کیا تھا اور کافی عرصے سے دونوں حصے (عمارتیں) خستہ حال اور ناقابل رہائش تھیں۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں عمارتوں میں سے ایک عمارت جس میں 20 فلیٹ تھے، 4 جولائی کو ایس بی سی اے کے اہلکاروں اور مالک کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے منہدم ہو گئی، جس کے نتیجے میں 27 افراد کی جانیں چلی گئیں۔
ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق، ایس بی سی اے کے اہلکاروں کو عمارت کی خستہ حالی کے بارے میں معلوم تھا اور 2022 سے 2025 تک چھ ڈائریکٹرز یعنی سید آصف رضوی، سید ضرغام حیدر، سید عرفان حیدر نقوی، اشفاق حسین، جلیس صدیقی اور فہیم مرتضیٰ اور دیگر نامزد افسران کو 4 جولائی 2025 کو عمارت کے منہدم ہونے تک اس کی خستہ حالی کے بارے میں علم تھا، لیکن مذکورہ افسران اپنی سرکاری ڈیوٹی انجام دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے اور غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔
ایف آئی آر کے مطابق مذکورہ افسران نے کوئی ’ سنجیدہ اقدامات’ نہیں کیے، ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ اہلکاروں نے ’ دانستہ طور پر’ سرکاری ریکارڈ میں یہ ذکر نہیں کیا کہ مذکورہ عمارت خستہ حال تھی، ان کی غفلت کی وجہ سے عمارت کا ایک حصہ منہدم ہو گیا اور 27 افراد کی جانیں چلی گئیں۔
عمارت کے موجودہ مالک رحیم بخش خاصخیلی اور دیگر نامعلوم مالکان کو بھی معلوم تھا کہ عمارت انسانوں کے لیے قابل رہائش نہیں ہے، اس کے باوجود، مالکان نے ہندو برادری کے افراد کو کئی فلیٹ کرائے پر دیے اور غفلت کا ارتکاب کیا۔
مدعی نے کہا کہ وہ ایس بی سی اے کے اہلکاروں اور عمارت کے مالکان کے خلاف قانونی کارروائی چاہتے ہیں۔
پولیس نے مقدمےمیں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 322، 337-اے (i)، 288، 427، 217، 218 اور 34 شامل کی ہیں۔