مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:75
جنگِ ستمبر 1965ء کی جنگ کے 2 ایسے بھارتی مرکزی چشم دید اہم کردار ہیں جن میں سے ایک جنرل ہربخش سنگھ جو لاہور، قصور، کھیم کرن اور پاکستان کی مشرقی سرحدوں میں لڑنے والی بھارتی فوج کو کمانڈ کر رہے تھے۔ دوسرے اہم کردار آرڈی پردھان جو اْس وقت کے وزیرِ دفاع وائی بی چاون کے پرنسپل سیکرٹری تھے اِن دونوں حضرات نے اپنے اپنے طور پر اور اپنے اپنے انداز میں جنگِ ستمبر پر کتابیں لکھی ہیں۔ آرڈی پردھان کی کتاب Inside Story کے باب نمبر 8 میں لاہور محاذ پر بھارتی فوج کے کمانڈر میجر جنرل رانجھن کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جب پاکستانی افواج نے توپ خانے اور ٹینکوں سے جوابی حملہ کیا تو وہ بارش کی طرح برسنے والے فائر سے خوف زدہ ہو کر بھاگ نکلے۔ جنرل ہربخش سنگھ کور کمانڈر جو جیپ میں بیٹھ کر محاذ جنگ کی طرف آ رہے تھے اس وقت بھارتی گاڑیوں پر پاکستانی ائیر فورس کی بمباری اور راکٹ فائرنگ کی استعداد اس قدر بھرپور اور تباہ کن تھی کہ محفوظ رہ جانے والے بھارتی فوجی اپنی وہیکلز کو اسی طرح چلتا چھوڑ کر اِدھر اْدھر کھیتوں میں چھپنے کے لئے بھاگنا شروع ہو گئے تھے۔ آر ڈی پردھان کی کتاب باب نمبر 12 میں جنگ ستمبر 1965ء کا احوال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انڈین آرمی چیف جنرل چودھری نے تجویز دیتے ہوئے وزیر دفاع وائی پی چاون سے کہا کہ بھارتی فوج کو پاکستانی افواج کی بمباری کا شکار اور وہیکلز کو نشانہ بنانے سے بچانے کے لئے دریائے بیاس کے پیچھے تک پسپا کر لیا جائے۔ انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر شیکھر گپتا کے مطابق جنرل ہربخش سنگھ نے اْسے اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ مختلف محاذوں سے ملنے والی اطلاعات پر جنرل چودھری اس قدر بدحواس ہو رہا تھاکہ اگر اس کے ہر حکم کو تسلیم کر لیا جاتا تو وہ آدھا پنجاب جنگِ ستمبر میں پاکستان کے حوالے کرنے کو تیار ہو چکا تھاجس میں ہم سکھوں کا مقدس ترین گولڈن ٹیمپل امرتسر شہر بھی شامل تھا۔
بھارت کے وزیر دفاع وائی پی چاون نے 9 ستمبر کو اس جنگ کی تازہ ترین صورتحال پر دی جانے والی انٹیلی جنس معلومات کی روشنی میں ایک نوٹ لکھا ”ہمیں ہر محاذ پر مزاحمت کا سامنا ہے“ قصور کے محاذ کا ذکر کرتے ہوئے چوان نے لکھا ”پاکستان آرمی نے قصور سیکٹر پر جوابی حملہ کرتے ہوئے انڈین آرمی کے مورچوں پر اس قدر تباہی مچا دی کہ آرمی چیف کی جانب سے فیصلہ ہوا ہے کہ یہاں سے انڈین فوج پیچھے کی جانب ہٹتے ہوئے محفوظ مقام پر ڈپیلائے (Deploy)کی جائے“ گویا پاکستانی افواج کے مضبوط دفاع اور پیش قدمی کے باعث بھارتی فوج پسپائی کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔
بھارت کے ساتھ پاکستان کی کشمیر کے مسئلہ پر پہلی جنگ 1948ء میں ہوئی جب پاکستان کے انگریز کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے قائداعظم کا وہ حکم ماننے سے انکار کر دیا جس کے ذریعے جنرل گریسی کو کشمیر میں فوجیں داخل کرنے کو کہا گیا تھا۔ بھارتی افواج کے کشمیر میں داخل ہونے پر ریٹائرڈ پاکستانی فوجیوں نے سابقہ صوبہ سرحد (کے پی کے) کے قبائلیوں کی مدد سے کشمیر میں داخل ہو کر کشمیرکے 34 فیصد علاقے پر قبضہ کرکے بھارتی تسلط سے آزاد کروا لیا جسے آزاد کشمیر کا نام دیا گیا۔ کارگل پر قبضہ کے بعد پاکستانی فوجیوں کی پیش قدمی سری نگر کی طرف جاری تھی کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلوا کر کشمیر میں جنگ بندی کا اعلان کروا دیا۔ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کو یقین دلایاکہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق بذریعہ رائے شماری کیا جائے گا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔