حنیف رامے سے ملاقات مایوس کن تھی، قنوطی پن کا اظہار کرتے ہوئے کہا موجودہ نظام میں یہ مسئلے حل نہیں ہو سکتے، جب تک ہم انقلاب نہ لائیں 

مصنف:رانا امیر احمد خاں


قسط:84


ضیاء الاسلام انصاری نے سیمینار میں سامعین کو اپنی مدلل اور پْرجوش خطابت سے خوب گرمایا۔ قبل ازیں مذکورہ بالا سیمینار میں بطور مقرر دعوت دینے کے لئے میں اْردو ڈویلپمنٹ بورڈ کے اس وقت کے ڈائریکٹر اور دانشور جناب اشفاق احمد خاں اور ڈپٹی ڈائریکٹر حنیف رامے سے جا کر ملا اور ان سے الگ الگ ملاقات کی۔


حنیف رامے سے ملاقات مایوس کن تھی، میں نے ان سے گزارش کی کہ وہ بڑے لکھاری اور دانشور ہیں، اس قبیح بْرائی اور مسئلے کے حل کے ضمن میں اظہار خیال کے لئے سیمینار میں تشریف لائیں۔انہوں نے اپنے قنوطی پن کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ نظام میں یہ مسئلہ اور دیگر مسئلے حل نہیں ہو سکتے، جب تک ہم انقلاب نہ لائیں۔ میں نے دوبارہ گزارش کی کہ جناب آپ اظہار خیال کے لئے تشریف لائیں ممکن ہے کہ قومی مسائل پر غور و خوض اور مباحثہ کرتے ہوئے شائد ہم پوری قوم کی توجہ اس انقلاب کی طرف مبذول کراسکیں، جس کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود رامے صاحب انکاری رہے۔ اشفاق احمد صاحب سے ملاقات مفید رہی، انہوں نے میری گزارشات کو توجہ سے سْنا اور مجھ سے اتفاق کیا کہ خوراک میں ملاوٹ واقعی قبیح سماجی بْرائی ہے، جس کے خلاف ہمیں لڑنا چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تو اس موضوع پر ایک فلم بھی بنائی، اس کا نام غالباً”دھوپ اور سائے“ تھا جس میں اس بْرائی اور مسئلے کو اْجاگر کیا گیا لیکن ہمارے لوگ خشک فلموں کو پسند نہیں کرتے ہیں، اس لئے یہ فلم فلاپ ہوگئی۔ بہرحال انہوں نے سیمینار میں شرکت کرکے اظہار خیال کرنے کی حامی بھر لی لیکن وہ بوجوہ تشریف نہ لا سکے۔


سیمینارمیں مقررین کی تقاریر بالخصوص مطلوبہ اقدامات و سفارشات کو اخبارات نے جلی حروف میں شائع کیا۔ کچھ اخبارات نے اداریئے بھی لکھے۔ ضیاء الاسلام انصاری نے دیدہ زیب کلر فل اشتہارات درج ذیل سرخی کے ساتھ ڈیزائن کئے۔ اشتہارمیں خوراک میں ملاوٹ جیسی قبیح بْرائی کے خاتمہ کے لئے ہماری تجاویز کو جگہ دی گئی تھی۔


اشتہار:”قاتلوں نے کارخانے قائم کر لئے ہیں“۔


اس اشتہار کو ایک ہزار کی تعداد میں شائع کروا کر لاہور شہر میں نمایاں جگہوں پر چسپاں کیا گیا۔ اخبارات کے دفاتر کے باہر بھی لگائے گئے۔ ہماری کاوشوں کے نتیجہ میں میونسپل کارپوریشن کے فوڈ انسپکٹروں نے اپنی کارکردگی دکھانے اور نمبر بنانے کے لئے پرچون فروشوں کی دکانوں پر چھاپے مار کر اشیائے خوراک کے نمونے لینے شروع کر دئیے، جس کے بعد انجمن پرچون فروشان کے عہدیداران وفد کی شکل میں یوتھ موومنٹ کے مرکزی دفتر فضل بلڈنگ کوپر روڈ لاہور آئے اور میرے ساتھ ملاقات میں بتایا کہ وہ تو اشیائے خوراک اکبری منڈی سے خرید کر فروخت کرتے ہیں، اس طرح اگر یہ اشیائے خوردنی ملاوٹ زدہ ہیں تو اس کے ذمہ دار تھوک فروش بڑے تاجران ہیں، پرچون فروشوں کی جان بخشی کی جائے اور بڑے تاجروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ خوراک میں ملاوٹ کے خلاف تحریک کو منظم کرنے والی کمیٹی کے ارکان کے مشورہ سے میں نے پرچون فروشوں اور اکبری منڈی کے تاجران کا مشترکہ اجلاس تاریخ مقررہ پر طلب کیا، جس میں اس قبیح بْرائی کے خاتمہ کی تجاویز پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اجلاس ہذا کے شرکاء نے گورنمنٹ تجزیاتی لیبارٹری کے اینالسٹ کے دفتر کے عملہ کے خلاف شکایات کا انبار لگا دیا، چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ اجلاس میں بڑے تاجروں، پرچون فروشوں اور گورنمنٹ اینالسٹ کواکٹھے مدعو کیا جائے گا تاکہ خوراک میں ملاوٹ کے مسئلے پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے اس مسئلہ کا حتمی حل تلاش کیا جا سکے۔


(جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
رجحان کو جلد جانیں۔      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap