تہران (ڈیلی پاکستان آن لائن) تہران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے ( آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون باضابطہ طور پر معطل کر دیا، یہ اقدام اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد اُٹھایا گیا۔
ڈان نیوز نے عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ 13 جون کو ایران اور اسرائیل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ 12 دن تک جاری رہی تھی، جس کے بعد تہران اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) کے درمیان تناؤ مزید بڑھ گیا تھا۔
25 جون کو، جنگ بندی کے ایک دن بعد، ایرانی قانون سازوں نے بھاری اکثریت سے اس بل کے حق میں ووٹ دیا جس کے تحت ایجنسی کے ساتھ تعاون کو معطل کیا گیا۔
سرکاری میڈیا نے آج بتایا کہ اس قانون سازی نے آخری مرحلہ بھی عبور کر لیا ہے اور اب یہ قانون نافذ العمل ہوچکا ہے۔
ایرانی میڈیا میں شائع ہونے والے قانون کے متن کے مطابق یہ قانون سازی ’ اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے کے تحت بنیادی حقوق کی مکمل حمایت کو یقینی بنانے’ اور ’ خصوصاً یورینیم کی افزودگی’ کے مقصد سے کی گئی ہے۔
یورینیئم افزودگی کا معاملہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان جوہری مذاکرات میں اختلافات کی اصل وجہ رہا، جو جنگ کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔
اسرائیل اور بعض مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں، تاہم تہران نے اس الزام کی ہمیشہ تردید کی ہے۔
قانون کے متن میں آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے سے متعلق کوئی ٹھوس اقدامات نہیں بتائے گئے، حالانکہ ایجنسی کے معائنہ کاروں کو جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل تھی۔
پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے بعد اس بل کو گارڈین کونسل نے منظور کیا، جو قانون سازی کی جانچ پڑتال کی ذمہ دار ہے، اور اس کے بعد صدارتی منظوری دی گئی۔
ایرانی سرکاری ٹی وی نے آج بتایا کہ صدر مسعود پزیشکیان نے ’ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے قانون کی حتمی منظوری دے دی ہے۔’
ایرانی حکام نے آئی اے ای اے پر شدید تنقید کی ہے کہ اس نے اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں پر ’ خاموشی’ اختیار کی۔
تہران نے اقوام متحدہ کے ادارے کی اس قرارداد کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے جو 12 جون کو منظور ہوئی تھی اور جس میں ایران پر جوہری ذمہ داریوں کی عدم تعمیل کا الزام لگایا گیا تھا۔
ایرانی حکام نے کہا کہ یہ قرارداد (ایران پر) اسرائیلی حملوں کے لیے ’ بہانے’ میں شامل تھی۔
سینئر عدالتی عہدیدار علی مظفری نے آج کہا کہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کو اس ’ جرم’ کی تیاری کے لیے ’ جوابدہ’ ٹھہرایا جانا چاہیے، جس سے ان کی مراد اسرائیلی فضائی حملے تھے۔
ایرانی نیوز ایجنسی تسنیم کے مطابق علی مظفری نے رافیل گروسی پر ’ فریب کاری اور جھوٹی رپورٹس’ جاری کرنے کا الزام لگایا۔
ایران نے رافیل گروسی کی اُس درخواست کو مسترد کر دیا، جس میں انہوں نے جنگ کے دوران بمباری کا نشانہ بننے والی جوہری تنصیبات کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی، اور اس ہفتے کے اوائل میں پزیشکیان نے ان کے طرزِ عمل کو ’ تخریبی’ قرار دیا تھا۔
ایران کا کہنا ہے کہ رافیل گروسی کی جانب سے بمباری زدہ مقامات کا دورہ کرنے کی درخواست ’ بد نیتی’ کو ظاہر کرتی ہے لیکن یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ رافیل گروسی یا ایجنسی کے معائنہ کاروں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
فرانس، جرمنی اور برطانیہ نےآئی اے ای اے کے سربراہ کے خلاف’ دھمکیوں’ کی مذمت کی ہے۔
ایران کے انتہائی قدامت پسند اخبار کیہان نے حالیہ دنوں میں دعویٰ کیا ہے کہ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ رافیل گروسی اسرائیلی جاسوس ہیں اور انہیں پھانسی دی جانی چاہیے۔
پیر کے روز ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسمٰعیل بقائی نے کہا کہ آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی ووٹنگ ایرانی عوام کی’ تشویش اور غصے’ کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ 12 روزہ جنگ اس وقت شروع ہوئی تھی جب اسرائیل نے ایران پر بڑے پیمانے پر بمباری کی اور اعلیٰ فوجی کمانڈرز، جوہری سائنسدانوں اور سیکڑوں شہریوں کو شہید کر دیا تھا، جس کے جواب میں تہران نے اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز کی بارش کر دی تھی۔
22 جون کو اسرائیل کے اتحادی امریکہ نے نے فردو، اصفہان اور نطنز میں ایرانی جوہری تنصیبات پر اپنی نوعیت کے پہلے حملے کیے تھے۔
عدلیہ کے مطابق ایران میں اسرائیلی حملوں میں 900 سے زائد افراد شہید ہوئے تھے۔
حکام کے مطابق ایران کے جوابی حملوں میں اسرائیل میں 28 افراد ہلاک ہوئے تھے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو ’ تباہ’ کر دیا، اگرچہ نقصان کی مکمل تفصیل واضح نہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جوہری تنصیبات کو ’ سنگین’ نقصان پہنچنے کا اعتراف کیا تھا، تاہم انہوں نے سی بی ایس ایوننگ نیوز کو حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ ’بمباری سے کسی ٹیکنالوجی یا سائنس کو مکمل طور پر مٹایا نہیں جا سکتا۔‘