مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:49
کچھ عرصے تک تو یہ نظام انتہائی کامیابی سے چلا۔ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں خانیوال تک آتیں اور پھربرقی انجن اس کو آگے کے سفر کے لیے کسی ڈیزل انجن کے حوالے کر دیتا اور خود الٹے قدموں لاہور کی طرف آنے والی کوئی دوسری گاڑی اپنے پیچھے لگا کر واپس آجاتا۔
کچھ ہی برسوں بعدبرقی رو کی فراہمی میں آئے روز خلل یا تعطل پیدا ہونے لگا۔ ایک تو بجلی کی سپلائی مسلسل نہ ملنے کی وجہ سے بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ انجن راستے میں ہی رْک جاتا تھا۔ لیکن بڑی وجہ یہ تھی کہ جب بْری نیت والے چوروں کو علم ہوا کہ اس لٹکتی ہوئی تار میں خالص تانبے کا استعمال ہوا ہے تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ تار کاٹ کر لے جاتے اور اسے پگھلا کر بیچ دیتے تھے۔ حالانکہ اتنے ہائی وولٹیج کرنٹ کی موجودگی میں ایسا کرنا تقریباً ناممکن تھا، لیکن انھوں نے اس کے بھی کئی طریقے نکال لیے تھے۔ کبھی تو وہ اس وقت تار کو کاٹتے تھے جب اس میں بجلی نہیں ہوتی تھی۔ اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ وہ ریلوے کے بعض بدعنوان عملے اور کالی بھیڑوں کو ساتھ ملا کر سب سٹیشن سے فرمائشی طور پر رات کے پچھلے پہر بجلی بند کروا کر منٹوں میں یہ واردات ڈال کر فرار ہو جاتے تھے۔
محکمہ ریلوے ایک حد تو کٹی ہوئی تاروں کو بدلتا رہا، تاہم جب حالات ان کے بس سے باہر ہو گئے تو انھوں نے ہاتھ کھڑے کردئیے اور افسران بالا کو صاف صاف بتا دیا کہ آپ کا یہ منصوبہ اپنی موت مر گیا ہے اب اسے دفنا دیں۔ نوشتہ دیوار صاف صاف لکھا ہو نظر آ رہا تھا۔ ایک آدھ انجن کا مسئلہ ہوتا تو اسے پرے کرکے ریلوے سروس کو جزوی طور پر جاری رکھا جا سکتا تھا، یہاں تو وہ شاخ ہی نہ رہی جس پر آشیانہ تھا۔ اس کا واحد حل ایک ہی تھا کہ اس کھیل کو ہی ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔
بالآخر 2009ء میں پاکستان میں برقی نظام کے تحت چلنے والے انجنوں کی ملازمت کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا اور ان کو مستقبل میں کسی اچھے وقت کے لیے محفوظ رکھنے کا بہانہ بنا کر ادھر اْدھر پھینک دیا گیا۔ لیکن وہ اچھا وقت تو پھرکبھی نہ آیا۔ ان میں سے کچھ تو ابھی تک اجاڑ بیابان جگہ پر کھڑے گل سڑ رہے ہیں اور چند ایک کو محکمہ ریلوے نے اپنے عجائب گھروں میں سجا لیا ہے۔ تاکہ آنے والی نسلوں کو یہ بتایا جا سکے کہ کبھی ہم بھی پاکستان میں بجلی کی گاڑیاں چلایا کرتے تھے۔ حالیہ دنوں میں بجلی کے ان انجنوں کا عجیب و غریب استعمال بھی دیکھا گیا۔ کہ اس کے اندر سے اس کا سارا سامان اور موٹریں وغیرہ نکال کر ان کی جگہ ایک ترتیب سے نشستیں لگا کر اسے ایک چھوٹی بوگی کی شکل دے دی گئی ہے اور اسے عام پسنجر گاڑیوں میں جوت دیا گیا ہے۔ جہاں سے وہ کچھ روپے کما کر محکمے کو دیتی ہیں۔اس لائن پر تانبے کی ہائی وو لٹیج تار تو مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے تاہم ہر سو 50 فٹ پر کھڑا ہوا خالی کھمبا منہ چڑا رہا ہے اور دور کہیں تانبے چور بیٹھے ہلکی آنچ پر مسکرا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قوم پر اپنا کرم خاص کرے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔