موسم کی طرح یہاں انسان بدل جاتے ہیں
جیسے نظموں کے کئی عنوان بدل جاتے ہیں
جو لوگ خربوزے کی طرح رنگ بدل جاتے ہیں
ہم بھی وہاں سے اپنا مکان بدل جاتے ہیں
نئی سنگت کے ملنے پر معیار بدل جاتے ہیں
ہر قدم پر نئے سانچے میں یار بدل جاتے ہیں
موسم کے بدلتے ہی پہناوے بدل جاتے ہیں
جیسے وقت کے بدلنے سے حالات بدل جاتے ہیں
دل وہی ہوتے ہیں جذبات بدل جاتے ہیں
جیسے ہر سال کتابوں کے نصاب بدل جاتے ہیں
پرائی دھن کی خاطر، لوگ اوقات بدل جاتے ہیں
وقت کے ساتھ وہ اپنی ترجیحات بدل جاتے ہیں
وہ لوگ جو بات کرتے ہماری بات کو طول دیتے تھے
اب ہم بات کرتے ہیں تو وہ بات بدل جاتے ہیں
.
از قلم: حفصہ مسکین