مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:48
کرکٹر شفقت رانا (والد فلمسٹار معمر رانا)، مشتاق ہاشمی، ڈاکٹر امجد پرویز (ٹی وی سنگرز، 1961ء تا1964ء) کالج ٹیٹوریل گروپ میں ہمارے ساتھ تھے۔ ڈاکٹر امجد پرویز اور شفقت رانا آج بھی کھیل و ثقافتی حلقوں میں مقبول ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سابق پرنسپل بعد میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد آفتاب میرے کلاس فیلو تھے اور بی اے میں میرے اور ڈاکٹر صاحب کے تمام مضامین مشترکہ تھے، جن میں انگلش لازمی کے ساتھ انگلش لٹریچر، سائیکالوجی اور اکنامکس تھے۔ انہوں نے بطور پرنسپل اور وائس چانسلر گورنمنٹ کالج میں ڈسپلن اور معیارِ تعلیم کو بہت بہتر کیا۔ وہ آج بھی ماہر تعلیم کے طور پر جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج کی تاریخ پر بھی انگریزی میں اعلیٰ پائے کی کتاب مرتب کی ہے۔
ہمارے دوست عبدالرشید خاں ایم اے انگلش اور سی ایس ایس کرنے کے بعد فیڈرل سیکرٹری کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔ محتسب اعلیٰ پنجاب بھی رہے اور بطور دیانتدار آفیسراور کامیاب ایڈمنسٹریٹر کے نیک نام کمایا۔ جہاں جہاں بھی ڈپٹی کمشنر اور کمشنر سیکرٹری رہے آج بھی لوگ اْن کے بااصول اور انصاف پرور ہونے کے باعث یاد کرتے ہیں۔ عبدالرشید خاں بااصول، باکردار، ذہین و فطین اور خوبصورت حس مزاح رکھنے کے باعث مجھے ہمیشہ اچھے لگے۔ اْن سے گھریلو تعلقات اْس وقت سے ہیں جب اْن کی شادی نہ ہوئی تھی اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ بہاولپور ہاؤس لاہور میں سرکاری بنگلے میں رہتے تھے، میں نے انہیں اپنی والدہ کی بہت عزت اور خدمت کرتے دیکھا۔ شادی کے بعد بھی غمی و خوشی میں ہمارا اْن کے ہاں اور اْن کا ہمارے ہاں جانا آنا رہا۔
ڈاکٹر صفدر محمود سے گورنمنٹ کالج کے نیو ہاسٹل میں ہماری کافی یاد اللہ تھی۔ مرحوم اعجاز ملک اور پروفیسر ڈاکٹر شفقت چوہدری نامی ایک مشترکہ دوست کے ہمراہ اْن سے میس میں اکثر ملاقات رہتی تھی اور قومی حالات و واقعات پر تبصرے ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا نام بطور لکھاری، دانشور اور ماہرِ علمِ تاریخ، بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔
گورنمنٹ کالج لاہورمیں جب میں بی اے کا طالب علم تھا اور ارشاد اللہ خان صدر راوین سٹوڈنٹس یونین تھے۔ تو اْنہوں نے مجھے کل پاکستان انٹر کالجیٹ مباحثہ منعقدہ گورنمنٹ کالج سرگودھا میں اپنے کالج کی نمائندگی کے لئے بھیجا۔ میں اپنی سابقہ عادت فی البدیہہ بولنے کے باعث اس مباحثے میں کوئی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پایا۔ اس طرح ہمارا کالج ڈیبیٹنک ٹرافی حاصل نہ کر سکا۔ حالانکہ اس سال انٹر کالجیٹ مباحثوں کے مقابلوں میں ہمارے کالج نے ریکارڈ (53) تریپن ٹرافیاں جیتیں تھیں۔ میں جب مباحثوں میں اپنی کمزور کارکردگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھ پر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مباحثوں کے مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے فن خطابت سیکھنا بڑوں کی طرف سے اس میں رہنمائی اور پریکٹس کروانا، بار بار سننا بہت ضروری ہے۔
ویٹرن صحافی محمود شام: آج کے بزرگ صحافی،جنگ واخبار جہاں کے نامور چیف ایڈیٹراور ہمیشہ سے درویش صفت، قابل فخر انسان محمود شام بھی میرے وقت میں گورنمنٹ کالج لاہور میگزین ”راوی“ کے ایڈیٹر تھے۔ اْن سے زمانہ طالبعلمی کے وقت کی مختصر سی یاد اللہ ہے۔میں کیا، ایک زمانہ اْن کی حب الوطنی، انسانیت دوستی، ایک بڑے ادیب، شاعر اور صحافی کے طور پر اْن کی صلاحیتوں کا معترف ہے۔وہ آج کل کراچی سے ”اطراف“ کے نام سے ایک خوبصورت ماہنامہ شائع کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔