مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:104
انہوں نے اتوار کے دن گھر میں ناشتے کی ٹیبل پر مجھے بتایا کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی تمام اراضی اپنی دونوں بیٹیوں کے نام کروانا چاہتے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ اس کی ایسی بھی کیا جلدی ہے؟ اللہ آپ کو زندگی دے یہ کام وقت پر ہو جائیں گے۔ انہوں نے مجھے مزید کہا کہ وہ یہ کام جتنی جلدی ممکن ہو سکے کروا دینا چاہتے ہیں۔ ان دنوں ملتان میں حفیظ اللہ اسحاق بطور ڈپٹی کمشنر ملتان تعینات تھے۔ حفیظ اللہ اسحاق گورنمنٹ کالج میں ہمارے کواڈرینگل ہاسٹل کے پریفیکٹ ہوا کرتے تھے جب 1960 ء کے زمانے میں میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور سٹوڈنٹ ریذیڈنٹ اس ہاسٹل کا سیکریٹری تھا۔ اپنے سسر کی خواہش پر میں ان کو ساتھ لے کر مع درخواست و کاغذات مال ڈپٹی کمشنر حفیظ اللہ اسحاق سے ملا جنہوں نے میری بہت عزت افزائی فرمائی اور میاں چنوں کے تینوں دیہات میں واقع اراضی میری بیگم شاہدہ پروین اور بہن شمیم بانو کے نام ہبہ کرنے کے آرڈرز کر دیئے اور تحصیلدار کو بلوا کر اس کام کو فوری مکمل کروا دیا۔
ملتان میں ہمارے پاس قیام کے دوران میرے سسر نے مجھے پہلی مرتبہ اپنی رہائش والے گھر واقع دیو سماج روڈ لاہور کے بارے میں ذکر کیا کہ وہ اور ان کے بھائی ایم اے ماجد خاں دونوں ہی قیام پاکستان کے بعد ریاست پٹیالہ انڈیا سے لاہور آنے پر وہاں آج تک مقیم ہیں۔ یہ گھر ان کے والد کے نام الاٹ ہوا تھا جو بعد میں ہندو وقف پراپرٹی ثابت ہوا۔ اس طرح یہ گھر کسی کی بھی ملکیت نہ ہو سکتا تھا اور دونوں بھائیوں کے پاس کرایہ داری تھی لیکن ان کے بھائی نے والد صاحب کے انتقال کے بعد اس پورے گھر کو عملہ آویکیو ٹرسٹ پراپرٹی(ہندوو قف پراپرٹی) سے مل کر کرایہ داری دونوں بھائیوں کی بجائے صرف اپنے نام کروا لی اور اپنے بڑے بھائی کو تنگ کرنا شروع کر دیا کہ یہ گھر چھوٹے بھائی عبدالماجد خاں کے نام ہے اس لیے بڑے بھائی اس کو خالی کر دیں۔ میرے سسر کا کہنا تھا کہ یہ کرایے داری دونوں بھائیوں کے نام ہونی چاہئے۔ ان دنوں بیگم آباد احمد خاں پیپلز پارٹی کی طرف سے ایم پی اے بنی تھیں۔
بیگم صاحبہ پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پہلے 1960ء کے عشرہ میں ہمارے ادارہ پاکستان یوتھ موومنٹ کے سیمینارز میں تشریف لایا کرتی تھیں۔ چنانچہ میں نے اپنی ہمشیرہ نسبتی شمیم بانو کو بیگم آباد احمد خاں کے نام ایک رقعہ دیا اور کہا کہ وہ لاہور جا کر ان سے ملیں وہ اس کام میں آپ کی مدد کریں گی۔ کچھ عرصہ بعد میں ملتان سے تبدیل ہو کر لاہور چلا گیا لاہور میں قیام کے دوران میں نے اپنے پرانے گورنمنٹ کالج کے کلاس فیلو ڈاکٹر خالد رانجھا جو ان دنوں قانون میں انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد لاہور میں اب ایک نامی گرامی وکیل تھے۔ ان سے مل کر چیئرمین مترو کہ پراپرٹی ٹرسٹ بورڈ کے چیئرمین کو درخواست دی کہ کرایہ داری دونوں بھائیوں کے نام کی جائے۔ اس درخواست پر محکمہ دو تین سال تک تاریخیں دیتا رہا اور بالآخر پاکستان یوتھ موومنٹ میں میری سابقہ رفیق کار شکیلہ شریف جو اب بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کے ساتھ شادی کے بعد بیگم شکیلہ رشیدکے نام سے جانی جاتی تھیں کی وساطت سے اور مرکزی وزیر صحت و مینارٹی افیئرز کے حکم نامہ پر گھر کی کرایہ داری والا جائز کام دونوں بھائیوں کے نام ہو جانے سے ایک بڑی ناانصافی کی تلافی ہوگئی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔